According to the Quran-e-Karim, all mankind are equal(تمام انسان برابر ہیں),& that Allah does not look to our race or color, but to our piety and righteous actions.[49:13]

Awam Encyclopedia

Encyclopedia about Castes & Tribes in Urdu and English, Castes and Tribes History, People, Customs, Culture and all abouts in Urdu and English.


مولانا محمد علی مکھڈوی کی ولادت مبارک 1162ھ بمطابق 1750ء میں محمد شفیع بن داؤد جلال آبادی کے گھرانے میں بٹالہ مشرقی پنجاب ہندوستان میں ہوئی۔ مولانا حضرت شاہ غلام علی دہلوی ثم بٹالوی کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ والد کا ان کے بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ آپ کے بڑے بھائی مولانا عبدالرسول نے آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت فرمائی۔

تعلیم وتربیت
مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی مولانا عبدالرسول سے حاصل کی۔ بٹالہ میں میاں جنوة اللہ سے فن خطابت سیکھا۔ اس کے بعد حصول علم کے لیے سفر اختیار کیا اور مولوی اسد اللہ بہاولپوری ، میاں مصطفی جی پشاوری ور میاں مرتضی سیالوی کی خدمت میں رہ کر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد علی مکھڈوی اپنے اقربا سمیت مکھڈ شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک تشریف لے آئے اور مولانا محکم الدین اپنے وقت کے متبحر عالم تھے۔ دور دور تک ان کا شہرہ تھا۔ عرصہ دراز تک مکھڈ شریف میں رہے اور مولانا محکم الدین کی خدمت میں رہ کر اکتساب فیض حاصل کیا۔

درس و تدریس
مولانا محکم الدین کے وصال با کمال کے بعد مولانا محمد علی مکھڈوی کو مدرسہ محمد علی کا جانشین مقرر کیا گیا۔ مکھڈ شریف میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور بہت جلد یہ مدرسہ برصغیر پاک و ہند کے بڑے مدرسوں میں شمار ہونے لگا اور دور دور کے شہروں کابل، بخارا، قندهار تک کے طلبہ حصول علم کے لیے آ تے رہے اور اس چشمہ فیض سے مستفیض ہونے لگے۔ علوم معقول و منقول یعنی منطق ، فلسفہ کے دقیق ابواب اور کتب میں آپ کی دسترس کی بڑی شہرت تھی۔ اس دور کے علما منطق اور فلسفہ کے دقیق مسائل آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر حل کراتے تھے۔ مولانا محمد علی مکھڈوی کے جانشین اول محمد عابد جی مہاروی ، جانشین دوم خواجہ زین الدین اور خواجہ شمس الدین سیالوی نامور شاگردوں میں سے ہیں۔

تلاش مرشد اور بیعت و خلافت
ظاہری علوم میں مشغول رہنے کے بعد مولانا محمد علی مکھڈوی کو حصول علم باطنی کے لیے کسی راہبر کامل کی تلاش کا اشتیاق ہوا تو اپنے عزیز ترین شاگرد خواجہ شمس الدین سیالوی کو ہمراہ لے دیوانہ وار مکھڈ سے نکل کھڑے ہوئے۔ مکھڈ سے موضع انب علاقہ سون میں حضرت ابراہیم کی خدمت میں پہنچے مگر قلبی تسکین نہ ہوئی اس کے بعد مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے تونسہ شریف شاہ محمد سلیمان تونسوی کی خدمت میں پہنچے اور سلام عرض کرنے کے بعدایک طرف بیٹھ گئے۔ حضرت پیر پٹھان نے پوچھا کہاں سے آ ئے ہو تو عرض کیا مکھڈ سے آیا ہوں تو اس پر حضرت پیر پٹھان نے فرمایا کہ مکھڈ میں ایک مولوی رہتا ہے۔ جس کے علم کی بڑی شہرت ہے۔ آپ نے عرض کیا مولوی مجھے ہی کہتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت خواجہ پیر پٹھان اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور آپ سے معانقہ کیا اور اپنے پاس بٹھالیا۔ آپ چھ ماہ تک متواتر حضرت پیر پٹھان کی خدمت اقدس میں رہ کر اکتساب فیض کرتے رہے لیکن حضرت پیر پٹھان نے آپ کو بیعت نہ کیا۔ چنانچہ چھ ماہ کے بعد حضرت خواجہ تونسوی نے آپ کو پیغام بھیجا جس کا مطلب یہ تھا کہ اے صوفی یہاں کیوں آئے ہو ہم تو رند مشرب لوگ ہیں اور آپ زہد و پارسائی کا دعوی رکھتے ہیں ہمارا آپ کا کیا جوڑ ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے اس وقت ایک رہائی جو آپ کی طبع زاد تھی لکھ کر خدمت میں بھیج دی۔ وہ رباعی یہ تھی

من براۓ دین فروشی سوئی تو آمدم تا دین وہم بر روی تو
ننگ و ناموسم نہ ماند حبہ ای چونکہ پا اندا ختم در کوئی تو
اس کے ساتھ ہی بیعت کے لیے درخواست کی۔ خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی بہت خوش ہوئے۔ مولانا صاحب کو بیعت فرمایا اور توجہ باطنی سے نواز کر تھوڑے ہی عرصے میں خرقہ خلافت عطا فرما کر حکم دیا کہ خلق خدا کی راہنمائی کرو۔ چنانچہ مکھڈ شریف واپس پہنچ کر مولانا محمد علی مکھڈوی نے سلسلہ درس و تدریس کے ساتھ سلسلہ ارشاد و تلقین بھی شروع کر دیا اور علاقہ میں تعلیمات خواجگان چشت اہل بہشت کو عام کیا۔ اس علاقہ کے متعدد علما آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ آپ نے زائرین کے لیے ایک وسیع لنگر جاری کر دیا اس کے علاوہ علما طلبہ اور آنے والے زائرین کے قیام کے لیے معقول انتظام کیا۔

مرشد کامل سے عقیدت و محبت
محمد علی مکھڈوی اگر چہ عمر کے لحاظ سے حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی المعروف پیر پٹھان سے 20 سال بڑے تھے مگر پھر بھی جب تک زندہ رہے اور تعلق بیعت کے بعد ہر سال حضرت خواجہ تونسوی کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی نے فرمایا کہ مولوی بوڑھا ہو گیا ہے لیکن ان کا عشق جوان ہے۔ جواسے ہر سال میرے دروازے پر لے آتا ہے۔

وصال با کمال
مولانا محمد علی مکھڈوی آخری عمر میں بیمار رہنے لگے تھے۔ بالآخر 29 رمضان المبارک 1253ھ بمطابق 1838ء میں خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی زندگی میں وفات پائی۔ تدفین مکھڈ شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں ہوئی۔ [1]

حوالہ جات
تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 479 تا 481


قطب شاہی علوی کھوکھر    میاں محمد یعقوب علوی بیروٹوی    دیوال    ڈھرنال    اعوان پورہ    اللہ یار خان    یوسف جبریل    ڈھوک اعوان    ٹی سی ایس کورئیر    Awan and Other Tribes Population    سلطان بازید محمد    چھنی تاجہ ریحان    بیروٹ    کھودے    غلام مرتضٰی ملک شہید    حکیم احمد الدین    بھرپور    واصف علی واصف    خواجہ شمس الدین سیالوی    ابوالفضل کرم الدین دبیر    حافظ غلام احمد    حافظ محمد مقبول الرسول للہی    قاضی شمس الدین    حضرت سلطان باہو    بابر افتخار    دیگر مسلم قبائل    غلام نبی للہی    اولمپیئن ملک محمد نواز    میجر جنرل تجمل حسین ملک    مل اعوان    مکھڈ شریف    محمد حمید شاہد    عبدالستار علوی    خواجہ زین الدین    شور کوٹ    ملک منور خان نامزد نشان حیدر    جبی    غلام اللہ خان    محمد جمال الدین ملتانی    حفیظ ماہی    محمد یار فریدی    مرزا عبدالقادر بیدل    غازی سید سالار مسعود    خواجہ امیر احمد بسالوی    محمد اکرم نشان حیدر    سلطان غلام دستگیر فخر کشمیر    کندوال    گنگ اعوان    خادم حسین رضوی    احسان الحق قادری    گنگال اعوان    سید حامد سبزواری    ردھانی    ائیر مارشل نور خان    اعوان دوسروں کے نکتہ نظر سے    مرزا مظہر جان جاناں    تریڑ اعوان برادری    بھمب اعوان    یاسین ملک    بھون    سعد حسین رضوی    ملک میاں محمد    ملک المدرسین عطا محمد بندیالوی    دامن مہاڑ    قاضی سلطان محمود    قاضی نور عالم    تاریخ اعوان    حزیر اعوان    خواجہ فضل الدین کلیامی    بھاگوال    حافظ دوست محمد للہی    چاہ اگرال    ملک پور    اعوان شریف    بلال آباد    ڈیرۂ اعوان    نور سلطان القادری    سلطان ریاض الحسن    مجوکہ    میاں صاحب قصہ خوانی    ڈھوک بدہال    مرجان اعوان    ڈھوک بازا    راستی بی بی    انور بیگ اعوان    خواجہ احمد خان میروی    پنڈوال    شیر محمد اعوان    محمد علی مکھڈوی    مشعال ملک    اوچھالی    سیلواں    موڑہ گنگال    شیر شاہ اعوان وکٹوریہ کراس    اعوان کڑی    سلوئی شریف    غازی ممتاز قادری    ڈھوک گنگال    اعوان جینیاتی تھیوری        اعوان کلاں    میاں محمد جیون    گھلی اعوان    خواجہ شمس الدین سید پوری    محمد عبیداللہ علوی    احمد ندیم قاسمی    سولنگی اعوان